بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،
اہم خبر: شاہدرہ میں آج بڑی سیلابی لہر گزرنے کا خطرہ، انتظامیہ نے ہائی الرٹ جاری کر دیا

لاہور (نیوز ڈیسک) ۔۔۔ گزشتہ رات دریاؤں اَوی، چناب اور سِلاج میں آنے والی غیرمعمولی طغیانی کے بعد آج جمعرات 28 اگست 2025 کو شاہدرہ میں ایک بڑی اور تباہ کن سیلابی لہر گزرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے اسے “قدرتی آفت کی ایک نادر اور خطرناک صورت حال” قرار دیتے ہوئے انتظامیہ اور عوام دونوں کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایت کی ہے۔
واقعات کا تسلسل: ایک رات پہلے کیا ہوا؟
صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے گزشتہ 24 گھنٹوں کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ بدھ کی شب ملک کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں، خاص طور پر پہاڑی مقامات پر غیر متوقع اور شدید بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بارشیں معمول سے کہیں زیادہ شدت اور دورانیے کی حامل تھیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق، اوی اور چناب کے بالائی طاس (بیسن) کے علاقوں میں محض بارہ گھنٹے میں 180 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی، جو کہ اس خطے کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دریائے اوی اور دریائے چناب یکدم پھول گئے۔ ان دریاؤں میں پانی کی سطح خطرے کے نشان سے بھی دو میٹر اوپر چلی گئی۔ یہ سیلابی ریلہ تیزی سے نیچے کی طرف بڑھا اور اس نے دریائے سِلاج میں شامل ہو کر اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب یہ تینوں دریاؤں کا مشترکہ پانی ایک عظیم الشان اور طاقتور سیلابی لہر کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو کہ دریائے راوی کے ذریعے لاہور کے تاریخی علاقے شاہدرہ کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔

Punjab Flood Updates Pak Army on High Alert 2025
شاہدرہ پر آنے والے خطرے کی نوعیت
شاہدرہ، جو اپنے تاریخی مقبروں اور باغات کی وجہ سے مشہور ہے، دریائے راوی کے کنارے آباد ہے۔ ہائیڈرو لوجیکل ماڈلز کے مطابق، سیلابی لہر آج دوپہر تک شاہدرہ پہنچنے کی توقع ہے۔ ماہرین کے تخمینوں کے مطابق، اس لہر میں پانی کی مقدار تقریباً 450,000 کیوسک ( cubic feet per second) ہو سکتی ہے، جو کہ 2010 کے تاریخی سیلاب کے قریب ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی کا پانی خطرے کے مقرر کردہ نشان سے تقریباً تین میٹر اوپر آ سکتا ہے، جس سے نہ صرف شاہدرہ کے نچلے علاقے بلکہ راوی کے دونوں جانب آباد کئی دیہات اور زرعی زمینیں بھی زیر آب آ سکتی ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ انسانی آبادیوں، مویشیوں اور فصلوں کو ہے۔
انتظامیہ کے ہنگامی اقدامات: ایک جنگ جیسا آپریشن
صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ نے راتوں رات ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے۔
- انخلا کا عمل: سب سے پہلا اور اہم قدم خطرے کے زون میں رہنے والے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) اور district administration کی ٹیمیں رات سے ہی شاہدرہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں موجود ہیں۔ لوڈ اسپیکرز کے ذریعے عوام کو خبردار کیا جا رہا ہے اور انہیں قریبی حکومتی اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ فوج کے جوانوں کو بھی مدد کے لیے طلب کر لیا گیا ہے جو بوٹس اور ٹرکوں کے ذریعے انخلا کے عمل میں معاونت کر رہے ہیں۔
- راحت و بچاؤ OPERATION: محکمہ صحت نے متحرک ہو کر ہسپتالوں میں ہنگامی وارڈز قائم کر دیے ہیں۔ ایمبولینسز کو الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ خوراک، پینے کے صاف پانی، ادویات اور دیگر ضروری سامان سے لیس راحت کارواں خطرے والے علاقوں کی طرف روانہ کیے جا چکے ہیں۔
- انفراسٹرکچر کی حفاظت: انتظامیہ کی کوشش ہے کہ سیلاب کے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کیا جائے۔ یومیہ لاکھوں مسافروں کو ملانے والے شاہدرہ پل کو عارضی طور پر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے تاکہ اس کی ساختیک سالمیت (Structural Integrity) کو کسی قسم کے خطرے سے بچایا جا سکے۔ نچلے علاقوں میں بجلی کے ٹرانسفارمرز کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ بجلی کی سپلائی کو درپیش خطرے کو کم کیا جا سکے۔

ماہرین موسمیات اور ماہرین آبیات کا تجزیہ
ماہرین کے مطابق یہ واقعہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے غیر یقینی اور شدید موسمی واقعات (Extreme Weather Events) کی ایک واضح مثال ہے۔ ڈاکٹر علی رضا، ایک سینئر ماہر موسمیات، کا کہنا ہے کہ “یہ بارشیں مون سون کے عمومی دائرے سے ہٹ کر تھیں۔ ایک غیر معمولی کم دباؤ کا نظام ہمارے شمال میں قائم ہوا جس نے بادل برسانے والی ہواؤں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ ایک غیر متوقع موسمیاتی anomaly تھی جس نے اس تباہی کو جنم دیا ہے۔”
ماہر آبیات (Hydrologist) ڈاکٹر عائشہ سلطان نے بتایا کہ “دریاؤں کا نیٹ ورک آپس میں جڑا ہوا ہے۔ اوی اور چناب میں آنے والا پانی آخرکار راوی میں ہی شامل ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ اضافی پانی ایک ساتھ اور اتنے کم وقت میں آئے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہماری ڈیمنگ سسٹم اور water reservoirs نے کچھ پانی روک لیا ہے، لیکن یہ مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ گزرنا ہی ہے۔”
تاریخی تناظار: کیا ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے؟
شاہدرہ اور راوی نے ماضی میں بھی کئی سیلاب دیکھے ہیں۔ تاریخی ریکارڈز کے مطابق 1950، 1973، 1988، اور 2010 میں یہاں بڑے سیلاب آئے۔ 2010 کا سیلاب سب سے تباہ کن ثابت ہوا تھا جس میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں تباہ ہو گئی تھیں اور ہزاروں گھر بہہ گئے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بار کی سیلابی لہر 2010 کی لہر کے قریب قریب ہے، تاہم اس کے راستے میں بنائے گئے نئے flood embankments اور بندھوں سے امید ہے کہ نقصان کچھ حد تک کم ہو گا۔
عوام کے لیے ہدایات اور احتیاطی تدابیر
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں اور انتظامیہ کی دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔
- خطرے والے علاقوں میں رہنے والے شہری فوری طور پر اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے جائیں۔
- ضروری دستاویزات، کیش، ادویات اور قیمتی سامان کو اونچی اور محفوظ جگہ پر رکھیں۔
- سیلابی پانی میں نہ نہائیں، نہ ہی گاڑی چلانے کی کوشش کریں۔ صرف 6 انچ کا تیز بہاؤ بھی انسان کو گرا سکتا ہے۔
- بجلی کے کھمبوں اور گرے ہوئے تاروں سے دور رہیں۔
- مقامی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 کے ہنگامی نمبرز کو ہمیشہ ہاتھ میں رکھیں۔
- سوشل میڈیا پر افواہوں پر کان نہ دھریں اور صرف سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کریں
مستقبل قریب کے امکانات
اب سب کی نظریں دریائے راوی پر ہیں۔ موسمیات کے محکمے کی طرف سے ہر گھنٹے بعد نئی اپڈیٹس جاری کی جا رہی ہیں۔ اگرچہ بارشیں رک چکی ہیں، لیکن دریاؤں میں پانی کی سطح ابھی مزید بڑھ سکتی ہے کیونکہ بالائی علاقوں کا پانی نیچے آنے میں وقت لگتا ہے۔ انتظامیہ مکمل طور پر الرٹ ہے اور ہر ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
خلاصہ اور دعا
ملک کے قلب میں واقع تاریخی علاقہ شاہدرہ ایک بار پھر قدرت کی شدید آزمائش سے گزر رہا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے خطرات اور مضبوط تیاری کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ امید ہے کہ انتظامیہ کے بروقت اقدامات اور عوام کی coopration سے اس آزمائش پر قابو پایا جا سکے گا اور جانی و مالی نقصانات کو کم سے کم رکھا جا سکے گا۔ اللہ پاک ملک و قوم کو ہر قسم کی آفت و مصیبت سے محفوظ رکھے اور اس مشکل گھڑی میں ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
